پھر دونوں بائیک پر اڑتے دکھائے جاتے ہیں اور گول گپے کھاتے موج مستی کرتے دکھائے جاتے ہیں جسے اب عرفِ عام میں"ڈیٹنگ" کہتے ہیں۔ جب کہ لڑکی کی فیملی کے گمان میں وہ کالج پڑھنے گئی ہے😏
لڑکی بڑے مزے اور سکون سے جھوٹ بولتی ہے اور اپنی کزن کے ہسپتال پہنچ جاتی ہے جس کے ساتھ اسے گھر جانا ہوتا ہے۔
پھر اگلے سین میں کزن کی مایوں ہے اور لڑکی لہنگا شہنگا پہنے تیار ہوئی رات وہیں رکنے کا پروگرام بناتی ہے کہ اتنے میں اسے یاد آتا ہے کہ مہندی کے لئے چوڑیاں تو لی ہی نہیں اور اسے آدھی رات کو چوڑیاں لینے کا شوق اٹھتا ہے لہذا وہ اپنے اسی بوائے فرینڈ کو وہاں بلاتی ہے اور کزن بھی بھیج دیتی ہے۔یہ سب یوں بلکل نارمل انداز میں دکھایا جاتا ہے گویا ایک ننھی سی کاکی نے رات کو آئس کریم کی فرمائش کی اور ابا میاں آدھی رات اسے آئس کریم کھلانے لے گئے 😏
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک ہٹی کٹی لڑکی ایک ہٹے کٹے لڑکے کے ساتھ آدھی رات کو فل تیار ہوئے کراچی کی سڑکوں پر آوارہ گردی کر رہی ہے اور ناظرین کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ
It's okhaaayyy guysss its normal to have fun with your Boyfriend.
اپنے مزے کے لئے ماں باپ کو دھوکا دینے میں کوئی برائی نہیں ہے۔۔۔۔ پھر آگے چل کر اس ڈرامے میں یہی دکھایا جا رہا ہے کہ کیسے بوائے فرینڈ دھوکا دیتا ہے اور کیسے ابا میاں اپنی "بچی" کے اس غم پر ہلکان ہوتا ہے اور کیسے ایک دوسرا مرد اس کے اس محبت میں دھوکے پر اس کا خیال رکھتا ہے۔
گویا لڑکے لڑکیوں کو باقاعدہ یہ ٹریننگ دی جاری ہے کہ کالج یونیورسٹیاں بوائے فرینڈز گرل فرینڈز ڈھونڈنے کے لئے اور ورک پلیسز یعنی کام کرنے کی جگہیں شوہر/بیوی ڈھونڈنے کے مقامات ہیں۔
کالج یونیورسٹی لائف انجوائے کرنے کی ہوتی ہے لہذا آپ ہرقسم کی بےحیائی کھل کھلا کے کرو کیونکہ اگر آپ کی شکل اچھی ہے تو آپ کو نو سو چوہے کھا کر بھی حج کا بُلاوا آجائے گا۔جب آپ یہ سب بلا چوں چراں کے دیکھ رہے ہیں تو اوکاڑہ یونیورسٹی جیسے واقعات پر واویلا کیوں؟
#dramas
منقول
No comments:
Post a Comment